حقہ پانی
Tuesday, June 15, 2010
Tuesday, June 8, 2010
Tuesday, November 10, 2009
Saturday, September 19, 2009
بھلا کیسی محبت ہے
عجــــــــــــــــــــــــــــ
100 ریال
ہمیں اتنی بڑي رقم لگتی ہے جب ہم مسجد ساتھ لے کر جاتے ہیں صدقہ دینے کے لیے
مگر
بڑی معمولی رقم لگتی ہے جب ہم بازار لے کر جاتے ہیں
عجیب
کسی وزیر یا بادشاہ کے دربار میں حاضری کو خوش نصیبی اور اعزاز تصور کرتے ہیں ان کے دربار میں ہمارےادب و احترام کی کوئی مثال نہیں ملتی
مگر
اللہ کے سامنے حاضری ہی بھاری لگتی ہے اور پھر اللہ کے دربار میں جمائی ، سستی، اور کاہلی کی کوئی مثال نہیں ملتی
عجیب
دو گھنٹے
ہمیں بہت طویل لگتے ہیں مسجد میں
مگر
عـــــــــــــــــــــــــــــ
ایک گھنٹہ
ہمیں بہت طویل لگتا ہے اللہ کی عبادت میں
مگر
یہی ایک گھنٹہ بہت معولی لگتا ہے انٹرنٹ پر یا ٹی وی کے آگے
عــــــــــــــــــــــــــــج
ہمیں قرآن کے دو صفحے پڑھنا بے حد مشکل لگتا ہے
مگر
اس کے برعکس
عــــــــــــــــــــــــجیب
ہم میڈیا و اخبارات کی باتوں پر تصدیق کرنے میں دیر نہیں کرتے
مگر
قرآن جو کہتا ہے اس پر شک و شبہات میں پڑے ہیں
کیسے یک دم ہم مغرب کے تہذیب میں رنگ جاتے ہیں اور ان کے طریقے اپنا لیتے ہیں
مگر
اپنے رسول عليه الصلاة والسلام کے طریقے (سنت) کو اپنانا گوارا نہیں !
عــــــــــــــــــــــــــجیب
ہمیں دعاء کے وقت ہر بات یاد نہیں آتی
مگر
دوستوں سے گپے مارتے ہوۓ دنیا جہاں کی باتیں یاد آتی ہیں
؟
عجــــــــــــــــــــــــــــ
ہر پارٹی یہ مجمع میں لوگو کی کثرت آگے نظر آتی ہے
مگر
مسجد میں پہلی صف کی رغبت نظر نہیں آتی
لوگو کی کثرت آخری صف میں نظر آتی ہے
عجــــــــــــــــــــــــــــ
ہمیں قرآن کی دو آیتیں یاد کرنا بہت مشکل لگتاہے
مگر
گانے اور ترانے یک دم یاد کر لیتے ہیں
آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جنت ناگوار چیزوں سے گھیری گئی ہے اور جھنم خوشگوار چیزوں سے گھیری گئی ہے "
(جو انسانی نفس کو خوشگوار لگتی ہے)
رواہ مسلم
اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"دنیا کی مٹھاس آخرت کی کڑواہٹ ہے اور دنیا کی کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے"
رواہ احمد و الحاکم
فَأَمَّا مَن طَغَى
تو جس [شخص] نے سر کشی کی ہوگی
وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
اور دنيوی زندگی کو ترجيح دی ہوگی
فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى
تو اس کا ٹھکانا جھنم ہی ہے
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى
ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کہرے ہونے
سے ڈرتا رہا ہو گا اور اپنے نفس کو نفسی خواہش سے روکتا رہا ہوگا
فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى
تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے
وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ
اور اپنے نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی
آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں
کل حساب کا دن ہوگا عمل کا نہیں
سنا تھا ہم نے لوگوں سے ۔۔۔۔۔
محبت چیز ایسی ہے ۔۔۔
چھپاۓ چھپ نہیں سکتی ۔۔۔
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے ۔۔
۔ یہ چہروں پر دمکتی ہے ۔۔۔
دلوں تک کو رلاتی ہے ۔۔۔۔
مگر
اگر یہ سب سچ ہے ۔۔۔
تو پھر ہمیں اپنے رب
سے بھلا کیسی محبت ہے
نہ آنکھوں سے جھلکتی ہے
نا چہروں پر دمکتی ہے ۔۔
نا لہجوں میں سلگتی ہے
نا دلوں کو آزماتی ہے
نا راتوں کو رلاتی ہے
یہ کیسی محبت ہے ۔۔۔
??????
بھلا کیسی محبت ہے
Friday, September 18, 2009
مہنگائی اور غربت بن گئی مقتل گاہ
پاکستان جو کہ چند برس قبل تک مہنگائی کا اس قدر شکار نہ ہوا تھا جس قدر آج ہے۔ہر طرف آٹا ۔ چینی اور دوسری ضروریات زندگی نے غریب بندے کا بڑھکس نکال کر رکھ دیا ہے۔ہر طرف لوگوں کی زبان پر صرف ایک ہہی لفظ ہے مہنگائی مہنگائی۔ ہمارا ملک جو کہ ایک زرعی ملک کہلاتا ہے۔ جس کا دارومدار زراعت پر ہے۔ لیکن اس ملک کی زرعی پیداوار اتنی بھی نہین ہے کہ اپنی عوام ہی سکون کی زندگی گزارے اور اپنا کاشت کرے اپنا کاٹے اور باہر سے اناج نہ منگوانا پڑے لیکن ہماری بد قسمتی ہے۔ یہ کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی زرخیز ترین زمین ہے۔ اس کا اندازہ آپ اسے سے لگا سکتے ہیں ۔ کہ کچھ عرب اور خلیجی ممالک ہماری زرعی زمین پر نظریں کاڑے بیٹھے ہیں کہ اس کو ہم حاصل کر لیں۔ اور اس پر کاشت کر کے وہ اپنے ملک کی ضروریات کو نہ صرف پورا کریں بلکہ اس سے فائدہ بھی اٹھائیں ۔ افسوس صد افسوس کہ ہم یہ سب دیکھ کر بھی اندھے بنے بیٹھے ہیں۔ ہماری حکومت نا جانے کس پالسی اور کای سوچ اپنے زہنوں میں لے کر اپنی زرعی زمینیں انہیں دینے کے درپے ہوئی ہے۔ وقتی طور پر ہو سکتا ہے انہٰن کچھ اس میں منافع نظر آرہا ہو۔ لیکن انہیں آگے کا سوچنا چاہیے صرف یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے تو اپنے پانچ سال پورے کر کے لوگوں کو گروی رکھ کر پھر ووٹ مانگنے چل دوڑنا ہے۔ بلکہ انہیں حقیقت کا اب اندازہ کر لینا چاہیے ۔ مانا کہ ان کے بچے تو بیرون ممالک جا کر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور وہاں پر وہ شہریت بھی لے سکتے ہیں ۔ لیکن خدارا ۔۔۔ اس قوم کے ساتھ ایسا مزاق نہ کریں کہ یہ قوم اپنی موت آپ مر جائے ۔ کہیں یہ بھی افریقی ممالک مٰن نہ شامل ہو جائے ۔کہ جہاں دیہاتوں کے دیہات بھوکے مر رہے ہیں ان کی لاشیں بھی بے گور و کفن پڑی گل سڑ رہی ہیں۔ہماری حکومت نے مرکزی طور پر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا ہے لیکن ۔ اس سے کسے فائدہ ہو گا اس انتظامیہ کہ جو یہ پروگرام چلا رہی ہے۔ اگر اس فنڈ کا 40 فی صد انتظامی امور پر خرچ ہی جانا ہے تو باقی 60 فی صد فنڈ کی تقسیم بھی کوئی اتنی شفاف نہین ہے کہ وہ ضرورت مندوں تک پہنچ سکے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی پارٹی اس فنڈ کی مدد سے اپنے جیالوں کو نواز رہی ہے جبکہ اس فنڈ کے حق دار اس سے بالکل بھی مستفید نہٰیں ہو رہے ہیں۔ اس رقم کا ایک اندازے کے مطابق صرف 30 فی صد حصہ ضرورت مندوں تک پہنچ رہا ہے۔اس فنڈ کا قریبآ 10 فی صد حصہ تو حکومت پرنٹ میڈیا کو خوش کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ جس سے ہر روز آپ روزنامے اخبار اٹھا کر دیکھیں تو ان پر اشتہار لگے ہوتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام چلایا جا رہا ہے۔ اس چیز کی مشہوری کرنے کا کیا فائدہ ہورہا ہے۔ کیا کسی ضرورت مند کی پیٹ کی آگ بجھ رہی ہے کیا کسی ضرورت مند کا ان اشتہاروں سے چولہا جل رہا ہے بالکل نہیں ۔ یہ سارا فنڈ جا رہا ہے تو صرف سرمایہ کار اخباروں کو جنہیں حکومت اپنے زیر نکوں رکھنے کے لئے اشتہاروں کی صورت میں عوام کی خون پسینے کی کمائی سے نواز رہی ہے۔پنجاب حکومت نے پہلے بیڑہ اٹھا یا کہ سستی روٹی دی جائے ۔ اس کے لئے انہوں نے فلور ملز کے سبسڈی دے کر آٹا سستے داموں تندوروں کو مہیا کیا کہ وہاں سے لوگ 2 روپے کی روٹی حاصل کر سکیں لیکن ہوا کیا ۔ اس میں بھی شفافیت نہ آ سکی ۔ ہر فلور ملز میں 100 فی صد سبسڈی والے تھیلے بنتے ہیں ۔ جن مٰیں سے فیکٹری سے نکلتے ہی یہ تھیلے صرف 90 فی صد رہ جاتے ہیں ۔ کس کی مدد سے فوڈ کنتڑولرز کی مدد سے باقی 90 فی صد آٹا تندروں تک آتا ہے۔ تو اس میں سے 20 فی صد آٹا وہ بلیک میں فروخت کر دیتے ہیں باق تندوروں پر روٹی کی شکل میں دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن وہ روٹی جو 2 روپے کی ہونی چاہیے غریب بندے کو پھر بھی دو روپے کی نہیں ملتی ہے۔ بلکہ جو دال کی پلیٹ پہلے 10 سے 15 روپے کی تھی وہ دال کی پلیٹ 20 سے 25 روپے کی خریدنے پر عوام 2 روپے کی روٹی خرید سکتی ہے۔ ئیعنی عوام کو پھر بھی وہ روٹی تقریبآ 5 روپے کی ملی ۔ اس سے کس کو فائدہ ہوا غریب عوام کو ہر گز نہیں۔اب آج کل رمضان بازار لگے ہیں اس مٰن عوام کو روزہ کی حالت میں زلیل خوار کیا جا رہا ہے۔ اسلام جو کہ عورت کے پردے کو اور عزت و تکریم کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے ۔ آج اسلام کی بیٹیاں دھوپ میں اور روزہ کی حالت میں سڑکوں پر خوار ہو رہی ہیں۔پولیس جو کہ ان کی حفاظت کے لئے تعینات ہے وہ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتی ہے۔ سارا دن کھڑے رہنے کے بعد انہیں کیا ملتا ہے ایک 10 کلو کا تھیلا جو اس کی فیملی پانچ دن استعمال کر سکے اور پھر سے وہی زلالت شروع۔ہم نے پچھلے دنوں کئی واقعات مٰیں دیکھا کہ پہلے گوجرانوالہ شہر میں ایک بزرگ شہری لائن میں کھڑا جان کی بازی ہار بیٹھا اور پھر کچھ دن بعد گوجر خان اور فیصل آباد میں ایسے ہی واقعات مٰن اموات ہوئیں ۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں ہے۔آج کراچی میں ایک مخیر شخص نے مفت راشن کی تقسیم شروع کی تو وہاں پر بھگدڑ مچنے سے تقریبآ 14 خواتین کی جان گئی اور کئی اس میں سے زخمی ہو گئی ہیں۔اور اس سے ہوا کیا ۔ کہ اس مخیر شخص کو گرفتار کر لیا گیا کہ تم نے یہ نیکی شروع کیوں کی۔چینی کا بحران تو حکومت اور اپوزیشن کا اپنا پیدا کردہ ہے کیونکہ اس میں تو صد فی صد ان کا اپنا مفاد تھا کیوں کہ ساری شوگر ملز انہی سیاسی پارٹیوں کے ارکان کی ہٰن جو پارلیمنٹ میں بیٹھی ہیں کیا کبھی ایک شوگر مل مالک چاہے گا اس کے خالف ایکشن لیا جائے ۔ آپ کا جواب ہو گا نہٰن تو جناب پھر کیسے یہی ارکان اپنے آپ کے خلاف کاروائی کریں گے۔عوام نے اس عدلیہ کو اپنا امید کا مرکز سمجھا اور تپتی دھوپ میں اس کی بحالی کے لئے پسینہ بھی بہایا اور خون بھی بہایا لیکن کیا ملا نا تو انصاف اور نہ ہی اپنا بنیادی حق۔ جناب حکومت سے تو امید عوام کی ٹوٹی ہی تھی لیکن عدلیہ نے بھی اخیر کر دی اور چوں چوں کے اس مربے میں حصہ دار بن گئی ۔ عوام کو راضی کرنے کے لئے یہ جج از خود نوٹس تو لے لیتے ہیں ۔ لیکن پھر اس کو اگلی تاریخ تک ڈال کر لوٹ کھسوٹ کا موقع دے دیتے ہیں۔ جس چیز کا فیصلہ تین دن کی کاروائی میں ہو سکتا ہے اس کے لئے 3 ماہ کی تاریخ دے دینا کیا یہ عوام کی سمئجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا کر رہے ہیں ججز۔ جناب پٹرول اس وقت کوئی 56 روپے لیٹر تھا جب اس پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کاروائی کی لیکن پھر اس کی کاروائی کو آگے دال دیا اور کوئی فیصلہ نہ دیا اور تین سے چار ماہ تک لٹکا رکھا ہے۔ پھر اب چینی کے بحران پر نوٹس لیا اور اپنے ہی فیصلے پر آج تک عمل درآمد نہٰیں کروا سکے ہیں۔بس جناب جان لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم جان لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکومت اور ایلیٹ کلاس ۔۔۔ بیورو کریٹس کبھی بھی آپ عوام کا بھلا نہین سوچیں گے جب تک اس ملک میں خونی انقلاب نہیں آئے گا جب تک یہاں عوام سڑکوں پر نہیں نکلے گی ۔ جب تک عوام ان نام نہاد لیڈروں کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہٰن پھینک دیتی۔اے اللہ! تو ہی اس قوم کی مدد فرما۔
Subscribe to:
Posts (Atom)